قادیانی شبہات کے جوابات

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نام کتاب: قادیانی شبہات کے جوابات (مکمل)
مرتب: حضرت مولانا ﷲ وسایا صاحب مدظلہ
تصحیح وتخریج (جلد دوم) : حضرت مولانا شاہ عالم گورکھپوری صاحب
تصحیح وتخریج (جلد دوم) : حضرت مولانا غلام رسول دین پوری صاحب
تصحیح وتخریج (جلد دوم): حضرت مولانا محمد رضوان عزیز صاحب
صفحات : ۶۸۸
قیمت : روپے
مطبع : ناصر زین پریس لاہور
طبع اوّل : جنوری ۲۰۱۷ء
ناشر : عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ روڈ ملتان
Ph: 061-4783486

اجمالی فہرست

۱… دیباچہ جدید ایڈیشن حضرت مولانا ﷲ وسایا مدظلہ ۳
۲… قادیانیت شبہات کے جوابات (جلد اوّل) حضرت مولانا ﷲ وسایا مدظلہ ۵
۳… قادیانیت شبہات کے جوابات (جلد دوم) حضرت مولانا ﷲ وسایا مدظلہ ۱۴۵
۴… قادیانیت شبہات کے جوابات (جلد سوم) حضرت مولانا ﷲ وسایا مدظلہ ۴۴۹
2

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دیباچہ جدید ایڈیشن

قادیانی شبہات کے جوابات جلد اوّل (ختم نبوت) رجب ۱۴۲۰ھ

قادیانی شبہات کے جوابات جلد دوم (حیات عیسیٰ علیہ السلام) جمادی الاوّل ۱۴۲۵ھ

قادیانی شبہات کے جوابات جلد سوم (کذب مرزاقادیانی) جمادی الثانی ۱۴۳۲ھ

میں شائع ہوئیں۔ تینوں جلدیں سالانہ ختم نبوت کورس چناب نگر کے نصاب میں شامل ہیں۔ تینوں جلدیں وقفہ، وقفہ سے شائع ہوئیں۔ اس لئے علیحدہ علیحدہ شائع ہوتی رہیں۔ تینوں کو ایک ساتھ ایک جلد میں شائع کرتے تو صفحات اتنے بڑھ جاتے کہ کتاب کو سنبھالنا دشوار ہو جاتا۔ لیکن علیحدہ علیحدہ شائع کرنے میں دشواری یہ پیش آئی کہ کبھی کوئی جلد شارٹ، کبھی کوئی۔ نیز یہ کہ رفقاء کرام کا خیال ہوا کہ اس کی لفظی اغلاط پر بھی نظر ڈالی جائے۔ چنانچہ نظرثانی کا کام حضرت مولانا غلام رسول صاحب دین پوری اور حضرت مولانا محمد رضوان عزیز صاحب نے انجام دیا اور دوستوں کی رائے پر فیصلہ بھی یہ ہوا کہ ان تینوں کو ایک جلد میں شائع کیا جائے۔ البتہ سائز بڑا کر دیا جائے تاکہ صفحات کی تعداد بھی زیادہ نہ بڑھنے پائے اور علیحدہ علیحدہ اشاعت کی دشواری سے بھی بچ جائیں گے۔ چنانچہ اب یہ جدید ایڈیشن تینوں یکجا جلدوں پر مشتمل ہے۔ حق تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے شرف قبولیت سے سرفراز فرمائیں۔ آمین!

محتاج دعا: فقیر ﷲ وسایا ملتان

۲۲؍ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ، مطابق ۲۳ ؍فروری ۲۰۱۷ء

3

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

4

ختم نبوت

 

 

 

جلد اوّل

5

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فہرست مضامین

عقیدہ ختم نبوت اور قرآن مجید کا اسلوب بیان

  1. Page ۱۲ Page ۱۳ Page ۱۴ Page ۱۶ Page ۱۷ Page ۱۸ Page ۱۹ Page ۱۹ Page ۱۹ Page ۲۰ Page ۲۰ Page ۲۱ Page ۲۱ Page ۲۱ Page ۲۲ Page ۲۲ Page ۲۲ Page ۲۴ Page ۲۵ Page ۲۵ Page ۲۶ Page ۳۰ Page ۳۱ Page ۳۲ Page ۳۳

    ختم نبوت اور احادیثِ نبویہ متواترہ

    Page ۳۴ Page ۳۵ Page ۳۵ Page ۳۶ Page ۳۶ Page ۳۷ Page ۳۸ Page ۳۸ Page ۳۹ Page ۴۰ Page ۴۱ Page ۴۲ Page ۴۳ Page ۴۵
6
  1. قادیانی شبہات اور ان کے جوابات

    Page ۴۶ Page ۴۸ Page ۴۹ Page ۵۰

    قرآنی آیات میں قادیانی تاویلات وتحریفات کے جوابات

    Page ۵۱ Page ۵۱ Page ۵۱ Page ۵۱ Page ۵۲ Page ۵۵ Page ۵۸ Page ۵۹ Page ۵۹ Page ۶۰ Page ۶۰ Page ۶۱ Page ۶۱ Page ۶۲ Page ۶۴ Page ۶۴ Page ۶۴ Page ۶۵ Page ۶۵ Page ۶۷ Page ۶۷ Page ۶۷ Page ۶۸ Page ۶۹ Page ۷۰ Page ۷۳ Page ۷۴ Page ۷۵ Page ۷۵ Page ۷۶ Page ۷۶ Page ۷۶ Page ۷۸ Page ۷۸ Page ۷۸ Page ۷۸ Page ۸۱ Page ۸۱
7
  1. Page ۸۲ Page ۸۲ Page ۸۳ Page ۸۳ Page ۸۳ Page ۸۳ Page ۸۴ Page ۸۴ Page ۸۴ Page ۸۴ Page ۸۶ Page ۸۶ Page ۸۶ Page ۸۶ Page ۸۷ Page ۸۷ Page ۸۸ Page ۸۸ Page ۹۰ Page ۹۰ Page ۹۰ Page ۹۰ Page ۹۱ Page ۹۱ Page ۹۳ Page ۹۳ Page ۹۶ Page ۹۶ Page ۹۹ Page ۹۹ Page ۱۰۱ Page ۱۰۱ Page ۱۰۱ Page ۱۰۱ Page ۱۰۲ Page ۱۰۲ Page ۱۰۳ Page ۱۰۳ Page ۱۰۴ Page ۱۰۴

    احادیث میں قادیانی تاویلات وتحریفات کے جوابات

    Page ۱۰۵ Page ۱۰۵ Page ۱۰۹ Page ۱۰۹
8
  1. Page ۱۱۲ Page ۱۱۲ Page ۱۱۲ Page ۱۱۲ Page ۱۱۳ Page ۱۱۳ Page ۱۱۳ Page ۱۱۳ Page ۱۱۴ Page ۱۱۴ Page ۱۱۴ Page ۱۱۴ Page ۱۱۶ Page ۱۱۶ Page ۱۱۶ Page ۱۱۶ Page ۱۱۷ Page ۱۱۷ Page ۱۱۷ Page ۱۱۷ Page ۱۱۸ Page ۱۱۸ Page ۱۱۸ Page ۱۱۸ Page ۱۱۹ Page ۱۱۹ Page ۱۱۹ Page ۱۱۹ Page ۱۲۰ Page ۱۲۱ Page ۱۲۱ Page ۱۲۲ Page ۱۲۲ Page ۱۲۳ Page ۱۲۳ Page ۱۲۴ Page ۱۲۴ Page ۱۲۵ Page ۱۲۵ Page ۱۲۶ Page ۱۲۷ Page ۱۲۹ Page ۱۲۹ Page ۱۳۰ Page ۱۳۱ Page ۱۳۱ Page ۱۳۲ Page ۱۳۷ Page ۱۳۸ Page ۱۴۲ Page ۱۴۳ Page ۱۴۳
9

پیش لفظ

(طبع اوّل)

مسئلہ ختم نبوت ،رفع ونزول سیدناعیسیٰ علیہ السلام اورکذب مرزا پرامت محمدیہa کے علماء واہل قلم نے گراںقدرکتب تحریر فرمائیں۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اکابر کی خواہش تھی کہ ان رشحات قلم اوربکھرے ہوئے موتیوںکی آبدارمالاتیا رکردی جائے۔اس نئی ترتیب میں جدیدوقدیم قادیانی اعتراضات کے جامع، مسکت، دندان شکن جوابات جمع کردئے جائیں۔اکابرواصاغرکی خواہش کے احترام میں یہ کام مو لانا ﷲوسایاصاحب کے سپردکیاگیا۔

کام کرنے کے لئے یہ خطوط متعین کئے گئے کہ :

الف… عقیدہ ختم نبوت پرقرآن وسنت اوراجماع امت کے دلائل ہوں۔

ب… مسیلمہ کذاب سے قادیانی کذاب تک تمام بے دین وبددین ا فر ا د وجماعتوں کے جملہ اعتراضات کے جوابات میںمناظرین اسلام نے جو کچھ ارشاد فرمایاسب کوجمع کردیاجائے۔

ج… مناظراسلام حجۃﷲعلی الارض حضرت مولانالال حسین اخترv،فاتح قادیان استاذ المناظرین مولانا محمد حیاتv کی عمربھرکی ریاضت وفتنہ قادیانیت سے متعلق ان کی علمی محنت کو انہی کی نوٹ بکوںکی مددسے مرتب کردیاجائے۔

د… مولاناپیرمہرعلی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ مولاناسیدمحمدعلی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ، مولاناسید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمدشفیعv، مولانا محمدادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا بدرعالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ،مولانا عبدالغنی بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمدچراغ رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمدمسلم دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ، مولاناثناء ﷲامرتسری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا

10

محمدابراہیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدﷲمعمارv نے قادیانی شبہات کے جوابات میںجو کچھ فرمایاوہ سب اس کتاب میںسمودیاجائے۔

ہ… مناظراسلام مولانالال حسین اخترv سے دوران تعلیم مولانابشیراحمد فاضل پوری اور مولانا ﷲوسایانے جوکچھ تحریر ی طورپرمحفوظ کیا۔ اسی طرح مناظراسلام فاتح قایان مولانامحمدحیاتv، حکیم العصر مولانامحمدیوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ، مولاناعبدالرحیم اشعرv، مولاناخدابخشv، مولاناجمال ﷲv، مولانامنظوراحمد چنیوٹی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمداسماعیل اوردیگر حضرات نے جو کچھ پڑھا،مطبوعہ یامخطوطہ جوبھی میسرآئے موقعہ بموقعہ اس کتاب میں شامل کردیا جائے۔ تاکہ یہ ایک ایسی دستاویزتیار ہوجائے جسے قادیانی شبہات کے جوابات کا انسائیکلوپیڈیا قراردیاجاسکے۔

الحمدﷲ!ان خطوط پرمولاناموصوف نے کام کیا۔ پہلاحصہ جوختم نبوت کے مباحث پرمشتمل ہے آپ کی خدمت میںپیش کیا جا ر ہا ہے۔پہلے اس کا نام ختم نبوت پاکٹ بک تجویزکیاگیاتھا۔مگراحباب کی رائے یہ ہے کہ اب پاکٹ سائزکتب کارواج نہیںرہا۔ اس لئے اب اس کا نام (قادیانی شبہات کے جوابات) تجویز ہواہے۔ سالانہ رد قادیانیت کورس چناب نگر پر سبقاً یہ پڑھائی جانی ہے۔اس لئے اس کی فوری اشاعت ضروری ہے۔ورنہ بہت حد تک اس میں اصلاح کی گنجائش ہو گی۔ ہمارے مخدوم مولانا محمدیوسف صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کا نام تجویز فرمایا۔ ﷲتعالیٰ مجلس کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازیں۔آمین !

طالب دعا، خاکپائے اکابرین

عزیز الرحمن جالندھری

۲۸رجب ۱۴۲۰ ھ

11

عقیدہ ختم نبوت ا ور قرآن مجیدکا اسلوب بیان

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم:امابعد

اسلوب نمبر۱

قرآن مجیدنے جہاںخداتعالی کی توحید اورقیامت کے عقیدہ کو ہمارے ایمان کاجزو لازم ٹھہرایا۔وہاںانبیاء ورسل علیہم السلام کی نبوت ورسالت کااقرارکرنابھی ایک اہم جزو قرار دیاہے اورانبیاء کرامo کی نبوتوںکوماننااوران پرعقیدہ رکھناویسے ہی ا ہم اورلازمی ہے جس طرح خدا تعا لیٰ کی توحیدپر۔ لیکن قرآن مجید کواول سے آخرتک دیکھ لیجئے۔ جہاںکہیںہم انسانوںسے نبوت کااقرارکرایاگیاہو اورجس جگہ کسی وحی کو ہمارے لئے ماننالازمی قرار دیا گیا ہو۔ وہاں صرف پہلے انبیاء کی نبوت و وحی کاہی ذکر ملتا ہے۔ آنحضرتaکے بعدکسی کو نبوت حاصل ہواور پھراس پرخداکی وحی نازل ہوکہیںکسی جگہ پراس کا ذکرتک نہیں۔نہ اشارۃًنہ کنایۃً۔حالانکہ آنحضرتa کے بعداگرکسی فرد بشر کونبوت عطاکرنا مقصود ہو تاتوپہلے انبیاء کی بہ نسبت اس کاذکرزیادہ لازمی تھااوراس پرتنبیہ کرنا ازحدضروری تھا۔کیوںکہ پہلے انبیاء کرام علیہم السلام اوران کی وحییں توگزرچکیں۔ امت مرحومہ کو تو سابقہ پڑناتھا آنحضرتa کے بعدکی نبوتوںسے، مگران کانام ونشان تک نہیں۔ بلکہ ختم نبوت کوقرآن مجیدمیںکھلے لفظوںمیںبیان فرماناصاف اور روشن دلیل ہے اس بات کی کہ آنحضرتa کے بعدکسی شخصیت کونبوت یارسالت عطا نہ کی جائیگی۔

مندرجہ ذیل آیات پرغورفرمایئے۔

۱- ’’یُؤمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالاٰخِرَ ۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ(بقرۃ:۴)‘‘

{ایمان لائے اس پرکہ جوکچھ نازل ہوتیری طرف اورا س پرکہ جوکچھ نازل ہواتجھ سے پہلے اورآخرت کووہ یقینی جانتے ہیں۔}

۲- ’’یٰٓااَہْلَ الْکِتَابِ َہلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآاِلَّآاَنْ اٰمَنَّابِاللّٰہِ وَمَآاُنْزِلَ اِلَیْنَاوَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ (المائدہ:۵۹)‘‘

{اے کتاب والو!کیاضدہے تم کو ہم سے مگریہی کہ ہم ایمان لائے ﷲ پر اورجونازل ہواہم پر اورجونازل ہوچکاپہلے۔}

۳- ’’لٰکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْہُمْ وَالْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ (نساء:۱۶۲)‘‘

{لیکن جوپختہ ہیںعلم میں ان میںاورایمان والے ‘سومانتے ہیںاس کو جونازل ہواتجھ پراورجونازل ہوا تجھ سے پہلے۔}

۴- ’’یٰآاَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآاٰمِنُوْابِﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ (نساء:۱۳۶)‘‘

12

{اے ایمان والو!یقین لاؤ ﷲ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی ہے اپنے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی گئی پہلے۔}

۵- ’’اَلَمْ تَرَاِلیَ الَّذِ یْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ اٰمَنُوْ ابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ (نساء:۶۰)‘‘

{کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جو دعوی کرتے ہیں کہ ایمان لا ئے ہیں اس پر جو اتارا تیری طرف اور جو اتارا تجھ سے پہلے۔}

۶- ’’ وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِ یْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (زمر:۶۵)‘‘

{اورحکم ہوچکا ہے تجھ کواورتجھ سے اگلوںکوکہ اگرتونے شرک مان لیاتواکارت جائیں گے تیرے اعمال اورتوہوگاٹوٹے میںپڑا۔ (یعنی یقنی طور پر سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جاؤ گے)}

۷- ’’کَذٰلِکَ یُوْحِیْ ٓاِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِ یْنَ مِنْ قَبْلِکَ اللّٰہُ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ (شوریٰ:۳)‘‘

{اسی طرح وحی بھیجتا ہے تیری طرف اورتجھ سے پہلوں کی طرف ﷲ زبر دست حکمتوں والا ہے۔}

مندر جہ بالا تمام آیتوں میں ﷲتعالی نے ہمیں صرف اُن کتابوں ، الہاموں اور وحیوں کی اطلاع دی ہے اور ہم سے صرف اُن ہی انبیاء کو ماننے کا تقاضہ کیا ہے جو آنحضرتa سے پہلے گزر چکے ہیں اور بعد میں کسی نبی کا ذکر نہیں فرمایا۔ یہ چندآیتیںلکھی گئی ہیں۔ورنہ قرآن پاک میںاس نوعیت کی اوربہت سی آیتیں ہیں۔ مندرجہ بالا آیتوں میں’’من قبل،من قبلک‘‘کاصریح طورپرذکرتھا۔

اسلوب-۲

اب چندوہ آیتیںبھی ملاحظ فرما ئیے جن میںخدا تعالی نے ماضی کے صیغہ میں انبیاء کا ذکر فرمایا ہے۔جس سے ثابت ہو تا ہے کہ نبوت کا منصب جن لوگوں کو حاصل ہونا تھا وہ ماضی میں حاصل ہو چکا ہے اور انہی کا ماننا داخل ایمان ہے۔آنحضرتa کے بعدکوئی ایسی شخصیت نہیںجس کونبوت بخشی جائے اوراس کا ماننا ایمان کا جزو لازمی قرار دیا گیا ہو۔

۱- ’’قُوْلُوْآ اٰ مَنَّابِﷲِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنِزِلَ اِلٰیٓ اِبْرَاہِیْمَ (بقرۃ:۱۳۶)‘‘

{تم کہہ دو کہ ہم ایمان لائے ﷲ پر اور جو اتارا ہم پر اور جو اتارا ابراہیم پر۔}

۲- ’’قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَمَآاُنْزِلَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ (آل عمران:۸۴)‘‘

{تو کہہ ہم ایمان لائے ﷲ پر اور جو کچھ اتارا ہم پر اور جو کچھ اتارا ابراہیم پر۔}

۳- ’’اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ کَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَوْحَیْنَآ اِلٰیٓ اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمَاعِیْلَ (نساء:۱۶۳)‘‘

{ہم نے وحی بھیجی تیری طرف جیسے وحی بھیجی نوح پر اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد ہوئے اور وحی بھیجی

13

ابراہیم پر اور اسماعیل پر۔}

ان تینوں آیتوں میں اور ان جیسی اور آیات میں ﷲتعالیٰ نے ہمیں گزشتہ انبیاء اور ماضی کی وحی کو منوانے کا اہتمام کیا ہے۔ حضورa کے بعد کسی کی نبوت ورسالت کو کہیں بھی صراحۃً وکنایۃً ذکر نہیں فرمایا۔ جس سے صاف ثابت ہو گیا کہ جن جن حضرات کو خلعت نبوت ورسالت سے نوازنا مقدر تھا، پس وہ ہو چکے اور گزر گئے۔اب آئندہ نبوت پر مہر لگ گئی اور بعد میں نبوت کی راہ کو ہمیشہ کے لئے مسدود کر دیا گیا ہے اور اب انبیاء کے شمار میں اضافہ نہ ہوسکے گا۔

اسلوب-۳

قرآن مجید میں بیان کردہ نقشۂ نبوت حضرات ناظرین کرام ملاحظہ فرمائیں ! ﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب دنیا پیدا ہوئی تو اس وقت حکم خداوندی حضرت آدم صفی ﷲ کو ان الفاظ میں پہنچایا گیا۔

’’قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعاً فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِنِّی ھُدیً فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فلَاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (بقرۃ:۳۸)‘‘

{ہم نے حکم دیا نیچے جاؤ یہاں سے تم سب۔ پھر اگر تم کو پہنچے میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو چلا میری ہدایت پر ،نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔}

’’قَالَ اھْبِطَا مِنْہَا جَمِیْعاً بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِنِّی ھُدیً فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلاَ یَضِلُّ وَلَا یَشْقیٰ (طٰہٰ:۱۲۳)‘‘

{فرمایا اترو یہاں سے دونوں اکٹھے۔ رہو ایک دوسرے کے دشمن۔پھر اگر پہنچے تم کو میری طرف سے ہدایت پھر جو چلا میری بتلائی راہ پر سو نہ وہ بہکے گا اور نہ وہ تکلیف میں پڑے گا۔}

اسی مضمون کو الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ دوسری جگہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ جس کو آج کل مرزا ئی آنحضرتa کے بعد نبوت کو جاری ثابت کرنے کے لئے بالکل بے محل پیش کردیا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت کا تعلق حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہے۔ ملاحظہ فرمائیے :

’’یَا بَنِیْ ٓ اٰدَمَ اِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَمَنِ اتَّقیٰ وَ ٰاَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمَ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (اعراف:۳۵)‘‘

{اے آدم کی اولاد اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں کے کہ سنائیں تم کو میری آیتیں۔ تو جو کوئی ڈرے اور نیکی پکڑے تو نہ خوف ہو گا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔}

ان دونوں آیتوں میںابتداء آفرینش کا ذکرفرمایاجارہاہے اوردونوںکاخلاصہ یہ ہے کہ ﷲتعالیٰ نے بنی اسرائیل اورنوع انسان کوحکم دیاکہ میںآدم سے نبوت کاسلسلہ شروع کرناچاہتا ہوںاورآدم کے بعدانبیاء ورُسل بکثرت ہوںگے اورلوگوںکے لئے ان کااتباع کرناضروری ہوگا۔ اس جگہ رُسُل جمع کے صیغہ سے بیان فرمایاہے اورانبیاء کی تحدید وتعیین نہیں کی۔جس سے ثابت ہواکہ آدم صفی ﷲ کے بعدکافی تعدادمیںانبیاء کرام مبعوث ہوںگے۔

بعد ازاں حضرت نوح وابراہیم علیہم الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ آیا تواس میںبھی یہی اعلان ہوا کہ ان کے بعدبھی بکثرت انبیاء کرام ہوں گے۔

14

’’وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحاً وَّاِبْرَاہِیْمَ وَجَعَلْنَافِیْ ذُرِّیَّتِہِمَاالنُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ فَمِنْہُمْ مُھْتَدٍ۔وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۔ ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلیٰٓ اٰثَارِہِمْ بِرُسُلِنَا (حدید:۲۶،۲۷)‘‘

{اورہم نے بھیجا نوح اورابراہیم کو اور ٹھہرا دی دونوں کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب۔پھر کوئی ان میں راہ پرہے اور بہت ان میں نافرمان ہیں۔پھرپیچھے بھیجے ان کے قدموں پر اپنے رسول۔}

اس آیت کریمہ میں صاف فرمایا کہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہم السلام پر نبوت کا دروازا بند نہیں ہو گیا تھا۔ بلکہ ان کے بعد بھی کافی تعداد میں انبیاء کرام تشریف لائے اور یہاں بھی ’’رسل ‘‘ کا لفظ فرمایا کوئی تحدید وتعیین نہیں فرمائی۔ علی ہذا القیاس یہی سنت ﷲ حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے بعدبھی رہی اور بعینہٖ یہی مضمون ذیل کی آیت میں صادرہوا۔

’’وَلَقَدْ اٰ تَیْنَا مُوْسیٰ ا لْکِتٰبَ وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ (بقرۃ:۸۷)‘‘

{اور بے شک دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور پے درپے بھیجے اس کے پیچھے رسول۔}

معلوم ہوا کہ حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی نبوت کا باب بند نہیں ہوا تھا اور ان کے بعد بھی انبیاء کرام بکثرت آتے رہے جس کو ﷲتعالیٰ نے بالرسل کہہ کر بیان فرمایا ہے

یہ صرف تین آیتیں اس لئے ذکر کی گئیں تا کہ ان سے معلوم ہو جائے کہ اولو العزم انبیاء کے بعد کیا سنت خدا و ندی رہی ہے؟

لیکن جب حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کی باری آئی تو اس مبشر احمد نے آکر دنیا کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ اب میرے بعد سلسلہ نبوت اس کثرت سے اور غیر محدود نہیں جیسے پہلے انبیاء کرا م کے بعد ہو تا چلا آیا ہے۔ بلکہ میرے زمانہ میں نبوت میں ایک نوع کا انقلاب ہو گیا ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ’’الرُسُل‘‘ کے لفظ سے انبیاء کرام کی آمد کو بیان کیا جاتا تھا اب واحد کا لفظ ’’بِرَسُوْل ‘‘کہہ کر ارشاد کیا اور بجائے اس کے کہ حسب سابق غیر محدود اور غیر معین رسولوں کے آنے کا ذکر کیا جاتا۔طریقہ بیان کو بدل کر صرف ایک رسول کے آنے کی اطلاع دی اور اس کے اسم مبارک (احمد a)کی بھی تعیین فرمادی کہ کو ئی شقی ازلی یہ دعویٰ نہ کرنے لگے کہ اس کا مصداق میں ہوں۔(جیسے خاص کر مرزا قادیانی کی امت یہ ہانک دیا کرتی ہے کہ بشارت احمد کا مصداق مرزا قادیانی ہے )

ارشاد ہوا ہے:

’’وَاِذْقَالَ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّراً بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہ‘ اَحْمَدُ (صف:۶)‘‘

{اور جب کہا مریم کے بیٹے عیسی نے اے بنی اسرائیل میں بھیجا ہوا آیا ہوں ﷲ کا تمہارے پاس۔ یقین کرنے والا اس پر جو مجھ سے آگے ہے توریت ،اور خوشخبری سنانے والا ایک رسول کی جو آئے گا میرے بعد اس کا نام ہے احمد۔}

آنے والے نبی کا نام بتاکر تعیین بھی کردی اور کہا کہ اب میرے بعد ایک اور صرف ایک رسول آئے گا۔ جس کا نام گرا می احمد ہو گا۔انبیاء سابقین نے تو اپنے بعد کے زمانہ میں بصیغۂ جمع کئی رسولوں کی آمد کی خوشخبری دی تھی۔ مگر حضرت مسیح نے صرف ایک رسول احمدa کی ہی بشارت وخوشخبری دی اور جب وہ رسول خاتم الانبیاء والمرسلین ،آخر آمد بود فخر

15

الاوّلین تشریف فرما ہوئے تو خدا نے ساری دنیا کے سامنے اعلان فرمادیا کہ اب وہ رسول کریمa جس کی طرف نگاہیں تاک رہی تھیں وہ تشریف فرما ہوگیا ہے۔ وہ خاتم النّبیین ہے اور اس کے بعد کوئی نیا شخص نبوت کے اعزاز سے نہیں نوازا جائے گا۔ بلکہ وہ نبوت کی ایسی اینٹ ہے جس کے بعد نبوت کے دروازہ کو بند فرمادیا گیا ہے۔ ارشاد ملاحظہ ہو:

’’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ (احزاب:۴۰)‘‘

یعنی آنحضرتa، جن کی آمد کی اطلاع حضرت مسیح نے دی تھی وہ آچکے اور آکر نبوت پر مہر کردی۔ اب آپ ﷺ کے بعد دنیا میں کوئی ا یسی ہستی نہیں ہو گی جس کو نبوت کے خطاب سے نوازا جائے اور انبیاء کرام کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔قرآن کا یہ طریقۂ بیان نبوت کے سلسلہ کی اُن کڑیوں کا اجمالی نقشہ تھا کہ جو حضرت آدم سے شروع ہو کر حضرت محمدa پر ختم ہو گیا۔

اسلوب- ۴

ﷲتعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ آنحضرتa تمام انبیاء کرام کے بعد تشریف فرما ہوئے ہیں آپ کے بعد اب کسی کو نبوت سے نہ نوازا جائے گا۔

’’وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤ مِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہ (آل عمران:۸۱ )‘‘

{اور جب لیا ﷲ نے عہد نبیوں سے کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آوے تمہارے پاس کو ئی رسول کہ سچا بتاوے تمہارے پاس والی کتاب کو تو اس رسول پر ایمان لاؤگے اور اس کی مدد کروگے۔}

اس جگہ متعین کردیا گیا کہ آنحضرتa تمام انبیاء کے بعد آئیں گے۔ اسی آیت کو مرزا قادیانی نے نقل کرکے اس کے بعد تحریر کیا ہے کہ اس آیت میں ’’ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُولٌ‘‘ سے مرا د آنحضرتa ہیں ۱؎۔

قرآن مجید کو اوّل سے آخر تک پڑھئے۔آپ کو معلوم ہوگا کہ ﷲتعالی نے سلسلۂ نبوت حضرت آدم صفی ﷲ سے شروع کیا اور آنحضرتa پر ختم کردیا خود مرزا قادیانی بھی اس کا اقراری ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں :

’’سیدنا ومولانا محمدa ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی ﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول ﷲ محمد مصطفیa پر ختم ہوگئی۔

( مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰)

آیات مندرجہ بالا کے علاوہ ایک ایسی آیت بھی ملاحظہ ہو جو کہ آنحضرتa کے بعد نبوت کی ضرورت کو ہی اٹھا دیتی ہے اور وہ ایسی فلاسفی بتاتی ہے کہ جس پر یقین کرکے ہر مومن اطمینان حاصل کرے کہ اب آئندہ کسی کو نبوت حاصل نہ ہوگی اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے۔

’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْناً (مائدہ:۳۳)‘‘

۱؎ مرزا نے لکھا ہے ’’وَاِذْ اَخَذَ ﷲ ُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّٖنَ …اور یاد کرو جب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں گا اور پھر تمہارے پاس آخری زمانہ میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرے گا۔ تمہیں اس پر ایمان لا نا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی۔( حقیقت الوحی خزائن ج۲۲ ص۱۳۳)

16

آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے تمہارا دین اور پورا کیا تم پر میں نے اپنا احسان، اور پسند کیا تمہارے واسطے اسلام کو دین۔

اس ارشاد خداو ندی نے بتلادیا کہ دین کے تمام محاسن پورے ہو چکے ہیں۔ اب کسی پورا کرنے والے ،مکمل کرنے والے کی ضرورت نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جب کسی پورا کرنے والے کی ضرورت نہیں رہی تو آج کے بعد کسی کو نبی ماننے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔

حضرت مو لانا مفتی شفیع صاحب vنے عربی میں کتاب تحریر فرمائی تھی، ہد یۃ المہدیین اس کا اردو ترجمہ ’’ختم نبوت کامل ‘‘ کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ اس میں آپ نے قرآن مجید کی ننانوے آیات سے مسئلہ ختم نبوت پر استدلال فرمایا ہے۔

عالم ارواح میں ختم نبوت کا تذکرہ

’’وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَّا اٰتَیْتُکُمْ مِنْ کِتٰبٍ وَحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآ ئَ کُمْ رَسُوْْلٌ مُّصَدِّقُ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤ مِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہ (آل عمران:۸۱)‘‘

اس آیت میں ﷲ رب العزت نے عہد ومیثاق کا ذکر فرمایا ہے۔جو ازل میں تمام انبیاء علیہم السلام سے آنحضرتa کے بارے میں لیا گیا۔جو ایک جملہ شرطیہ کی صورت میں تھا کہ اگر آپ میں سے کسی کی حیات میں محمدa تشریف لائیں تو آپ اس پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔ یہ عہد خاص اگر چہ جملہ شرطیہ کے طور پر تھا۔ تاہم اس سے تمام انبیاء علیہم السلا م پر آپ کی امتیازی جلالت شان واضح ہو گئی۔

جملہ شرطیہ کا وقوع ضابطہ میں ضروری نہیں تا ہم مختلف مواقع میں خاص شان کی جلالت واضح بھی ہوئی۔

۱… لیلۃ المعراج میں تمام انبیاء کا آپ ﷺ کی اقتدا کرنا۔

۲… یوم آخرت میں سب انبیاء علیہم السلام کا آپ ﷺ کے جھنڈا تلے جمع ہونا۔

۳… حضرت آدمm سے لیکر حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیاء کا اپنے اپنے ادوار میںآپ ﷺ کی آمد کی خبر دینا۔

۴… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابتک زندہ رکھا گیا۔وہ تشریف لا کر آپ ﷺ کی امت اور آپ کے دین کی مددفرمائیںگے وغیرہ۔

اس آیت میں ’’ثُمَّ‘‘ کا لفظ ’’النَّبِیِّیْنَ‘‘ کے بعد قابل توجہ ہے۔یعنی تمام انبیاء کے بعد سب سے اخیر میں وہ نبی تشریف لا ئیں گے۔ سبحان ﷲ ! ختم نبوت کی شان دیکھئے کہ عالم ارواح میں اس کا تذکرہ ﷲ رب العزت انبیاء علیہم السلام کی ارواح سے فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کُنْتُ اَوّلَ النَبیینَ فِی الخَلقِ وَآخِرَہُم فِی البَعْثِ تخلیق میں سب انبیاء سے پہلے ہوں اور بعثت میں تمام انبیاء کے بعد ہوں۔

(مسند الشامین للطبرانی رقم الحدیث:۲۶۰۰، دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث:۳، عیون الاثر لابن سید الناس رقم الحدیث:۱۶، ابن کثیر ص ۴۸ ج۸، کنز العمال ص ۴۱۸ ج۱۱حدیث نمبر۳۲۱۲۶)

واضح رہے کہ یہ حدیث کثرت طرق اور تلقی بالقبول کی وجہ سے درجۂ صحت کو پہنچی ہوتی ہے۔ محدثین کا اصول ہے۔ ’’یحکم للحدیث بالصحۃ اذا تلقاہ الناس بالقبول وان لم یکن لہ اسناد صحیح‘‘

(تدریب الرادی ج۲ ص۳۰، صفوۃ الاصول ص۱۲۷)

17

عالم دنیا میں ختم نبوت کا تذکرہ

۱… ﷲ رب العزت نے عالم دنیا میں سب سے پہلے سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ حضور پاک ﷺ کی حدیث ہے۔

’’اِنّی عِنْدَ اللّٰہ مَکْتُوبٌ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ وَاِنَّ اَدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِیْ طِیْنَتِہِ ‘‘

تحقیق کہ میں ﷲ کے نزدیک (لوح محفوظ میں )خاتم النّبیین اس وقت لکھا ہوا تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی مٹی میں تھے۔

(مشکوٰۃ ص ۵۱۳، مسند احمد ج۴ ص ۱۲۷، کنز حدیث نمبر۰ ۳۱۹۶، اتحاف المہدہ لابن حجر عسقلانی رقم الحدیث:۱۳۱۴۴، صحیح ابن حبان رقم الحدیث:۶۵۴۰، معجم کبیر طبرانی رقم الحدیث:۱۵۰۵۲، تاریخ اوسط للبخاری رقم الحدیث:۲۷)

عالم برزخ میں ختم نبوت کا تذکرہ

ابن ابی الدنیا وابو یعلی نے حضرت تمیم داری q سے ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت کی ہے کہ جب فرشتے منکر نکیر قبر میں مردہ سے سوال کریںگے کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے تو وہ کہے گا :

’’رَبِّیَ اللّٰہُ وَحدہ لا شریک لہ، الاسلامُ دینی، ومحمدٌ نبیی وَھو خاتمُ النبیینَ فیقولانِ لہ صدقتَ ‘‘

{میرا پر ور دگار وحدہ لا شریک ہے اسلام میرا دین ہے اور محمدa میرے نبی ہیں اور وہ آخری نبی ہیں۔ یہ سنکر فرشتے کہیں گے کہ تو نے سچ کہا۔} (تفسیر درمنثور ج۶ص۱۶۵)

عالم آخرت میں ختم نبوت کا تذکرہ

’’عن ابی ہریرہq فی حدیث الشفاعۃ فیقول لہم عیسیٰ علیہ السلام …اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ اِذْھَبُوْا اِلٰی مُحَمَّدِa فَیَأْتُوْنَ مُحَمَّدًاa فَیَقُوْلُوْن یَاْ مُحَمَّد اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَخَاتَمُ الْاَنْبِیَاء‘‘

حضرت ابو ہریرہ q سے ایک طویل روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔جب لوگ حضرت عیسی ٰ علیہ السلام سے قیا مت کے روز شفاعت کے لئے عرض کریں گے تو وہ کہیںگے کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جاؤ۔لوگ میرے پاس آئیںگے اور کہیں گے۔ اے محمد(a) آپ ﷲ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔

(بخاری ج۲ ص ۶۸۵، مسلم ج۱ ص ۱۱۱)

ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰm فرمائیںگے کہ آج محمد خاتم النّبیین تشریف فرما ہیں ان کے ہوتے ہوئے کون شفاعت میں پہل کرسکتا ہے۔بہر کیف معلوم ہوا کہ عالم آخرت میں بھی حضور a کی ختم نبوت کا تذکرہ ہو گا۔

حجۃ الوداع میں ختم نبوت کا تذکرہ

’’عن ابی امامۃ q قال قال رسول اللّٰہa فی خطبتہ یوم حجۃ الوداع ایہا الناس انہ لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم الا فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم وصوموا شہرکم وادوا زکوٰۃ اموالکم طیبۃ بہا انفسکم واطیعوا ولاۃ امورکم تدخلوا جنۃ ربکم‘‘

18

حضرت ابو امامۃ q فرماتے ہیں کہ نبی کریم a نے اپنے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا اے لوگو ! نہ میرے بعد کوئی نبی ہو گا اور نہ تمہارے بعد کو ئی امت۔

(منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند احمد ص۳۹۱ج۲)

خبر دا ر! اپنے رب کی عبادت کر تے رہو اور پانچ نمازیں پڑھتے رہو اور رمضان کے روزے رکھتے رہو اور اپنے مالوں کی خوش دلی سے زکوٰۃ دیتے رہو اور اپنے خلفاء کی اطاعت کرتے رہو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤگے۔

درود شریف اور ختم نبوت کا تذکرہ

’’عن علیq فی صیغ صلوۃ النبیa اللّٰہم صل علٰی محمدٍ خاتمُ النبیین وامام المرسلین۔ الحدیث۔رواہ عیاض فی الشفا ء‘‘

حضرت علیq سے درور شریف کے صیغے جو روایت کئے گئے ہیں ان میں اللّٰہم صلی علی محمد خاتم النبیین وامام المرسلین بھی آیا ہے۔قاضی عیاض نے اپنی کتاب شفا میں اس کو نقل کیا ہے۔

شب معراج اور ختم نبوت کا تذ کرہ

’’فی حدیث طویل فی باب الاسراء عن ابی ہریرۃq مرفوعاً قالوا یا جبرائیل من ھذا معک قال ھذا محمد رسول اللّٰہa خاتم النبیین (الی ان قال) فقال لہ ربہ تبارک وتعالیٰ قداخذ تک حبیباً وھو مکتوب فی التوراۃ محمد حبیب الرحمٰن وارسلناک للناس کافۃ وجعلت امتک ھم الاوّلون وھم الآخرون وجعلت امتک لا تجوز لہم خطبۃ حتیٰ یشہدوا انک عبدی ورسولی وجعلتک اول النبیین خلقاً وآخرہم بعثاً واعطیتک سبعاً من المثانی ولم اعطہا نبیاً قبلک واعطیتک خواتیم سورۃ البقرۃ من کنز تحت العرش لم اعطہا قبلک وجعلتک فاتحاًوخاتماً‘‘

(رواہ البزارکذا فی مجمع الزوائدص۲۷، بحوالہ ختم نبوت کامل ص۳۲۲ حدیث نمبر:۱۱۳)

حضرت ابوہریرہ q نے شب اسراء کے واقعہ کو مفصل ایک طویل حدیث میں مرفوعاً بیان کیا ہے (جس کے چند جملے حسب ضرورت ذکر کئے جاتے ہیں) فرشتوں نے حضرت جبرئیل سے کہا کہ یہ تمہارے ساتھ کون ہیں ؟جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ ﷲ کے رسول اور تمام انبیاء میں سے آخر محمد aہیں (اس کے بعد آپa نے فرمایا )ﷲتعالی کی جانب سے مجھے ارشاد ہوا کہ میں نے تمہیں اپنا محبوب بنایاہے اور توریت میں بھی لکھا ہوا ہے کہ محمدa ﷲ کے محبوب ہیں اور ہم نے تمہیں تمام مخلوق کی طرف نبی بناکر بھیجاہے اور آپ کی امت کو اوّلین اور آخرین بنایا،اور آپa کی امت کو اس طرح رکھا کہ ان کے لئے کوئی خطبہ جائز نہیں جب تک کہ وہ خالص دل سے گواہی نہ دیں کہ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں،اور میں نے آپ کو باعتبار اصل خلقت کے سب سے اول اور باعتباربعثت کے سب سے آخر بنایاہے۔ الخ!

19

کلمہ شہادت کی طرح عقیدہ ختم نبوت بھی ایمان کا جز و ہے

حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ اپنے ایمان لانے کا ایک طویل اور دلچسپ واقعہ بیان فرماتے ہیں۔ آخر میں فرماتے ہیں کہ جب میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر مسلمان ہو گیا تو میرا قبیلہ مجھے تلاش کرتا ہوا آپ a کی خدمت میں پہنچا اور مجھے آپ a کے پاس دیکھ کر کہا کہ اے زید اٹھو اور ہمارے ساتھ چلو۔میں نے جواب دیا کہ رسول ﷲ ﷺ کے بدلہ میں ساری دنیا کو کچھ نہیں سمجھتا اور نہ آپ a کے سوا کسی اور کا ارادہ رکھتا ہوں۔ پھر انھوں نے آنحضرتa سے خطاب کر کے کہا کہ اے محمدa! ہم آپ کو اس لڑ کے کے بدلہ میں بہت سے اموال دینے کے لئے تیار ہیں جو آپ a چاہیں طلب فرمائیں ہم ادا کر دیں گے ( مگر اس لڑکے کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے ) آپa نے فرمایا ’’اسئلکم ان تشہدوا ان لا الٰہ الا اللّٰہ وانی خاتم الانبیاء ورسلہ وارسلہ معکم ‘‘ میں تم سے صرف ایک چیز مانگتا ہو ں وہ یہ ہے کہ شہادت دو اس کی کہ ﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں انبیاء ورسل کا ختم کرنے والا ہوں۔(اس اقرار وایمان کے بدلہ میں) زید کو تمہارے ساتھ کردوں گا۔